اِس بیماری میں پردۂ بصارت کا زیادہ تر حصہ بتدریج خراب ہوتا جاتا ہے اور کام کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ یہ بیماری پردے کے مرکزی حصے کو عموماً متأثر نہیں کرتی۔ اگر کرے تو بیماری کی بہت آخری سٹیج پر جا کر کرتی ہے۔ پردے کے کناروں کی طرف سے خرابی شروع ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ مرکزی حصے کی آتی ہے۔ نیچے کی تصویر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ پردۂ بصارت خراب ہو رہا ہے:

اس تصویر میں پردہ بصارت بہت ہی زیادہ خراب ہو چکا ہے

اس بیماری کی علامات کیا ہوتی ہیں؟

اِس بیماری میں مریض کی نظر کا پھیلاؤ سُکڑتا جاتا ہے۔ یعنی آہستہ آہستہ نظر کا میدان سُکڑنے لگتا ہے۔ مریض جب سامنے دیکھ رہا ہوتو اُس کو دائیں یا بائیں سے گذرنے والے شخص یا گاڑی کا اندازہ نہیں ہو سکے گا۔ جب وہ چہرہ گھما کر ادھر دیکھے گا تو پھر ہی اُسے پتہ چلے گا کہ کوئی اُس کے دائیں طرف ہے یا بائیں طرف سے گذر رہا ہے۔ نیچے کی تصویر سے آپ سمجھ جائیں گے کہ مریض کو سامنے کا منظر کیسے نظر آئے گا

 

جب پردہ زیادہ خراب ہو جاتا ہے تو اُس وقت صرف وہ چیز نظر آتی ہے جو بالکل سامنے ہو۔ اِسے Tubular Vision کہتے ہیں۔ اس صورتحال کو 

اس بیماری کے لاحق ہونے کی کیا وجہ ہوتی ہے؟

یہ بیماری دراصل اِس لئے ہوتی ہے کہ مریض پردے کو کنٹرول کرنے والے بعض جینز خراب ہوتے ہیں۔ جینز تو وراثت میں انسان کو ملتے ہیں۔

کیا Retinitis Pigmentosa کا علاج ہو سکتا ہے؟

چونکہ یہ بیماری دراصل مریض پردے کو کنٹرول کرنے والے بعض جینز خراب ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے اور جینز تو وراثت میں انسان کو ملتے ہیں۔ اسلئے  ابھی تک یہ ممکن نہیں ہو سکا کہ اِس بیماری کو ظاہر ہونے اور پردے کو خراب ہونے سے بچایا جا سکے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ڈاکٹر اور مریض دونوں مجبور اور بے بس ہو کر نظر کو ڈوبتا ہوا دیکھتے رہتے ہیں لیکن ڈوبنے سے بچا نہیں سکتے!!

اس کا مطلب ہے کہ اس بیماری کے مریض کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا!

کونسا علاج ہو سکتا ہے؟

نہیں اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے۔ اس بیماری کے نتیجے میں بہت ساری پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں جو قابل علاج ہوتی ہیں۔ اور اکثر مریضوں کی تکلیف ان پیچیدگیوں کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ بنیادی بیماری کی وجہ سے۔ انتہائی اہم چیز یہ ہے کہ ان  پیچیدگیوں کو پیدا نہ ہونے دیا جائے اور اگر کوئی پیچیدگی پیدا ہو جائے تو فی الفور اُس کا علاج کیا جائے۔ اِس سے مریض بہت سارے مسائل سے بچ سکتا ہے اور بالکل اندھے ہونے سے بچ سکتے ہیں۔

    • وٹامن A اور بعض دوائیاں ایسی ضرور ہیں جو پردے کے خراب ہونے کی رفتار کو کچھ نہ کچھ کم کر دیتے ہیں۔
    • اِسی طرح اگر شادی کیلئے رشتے جوڑتے وقت اِس بات کا اہتمام کیا جائے کہ جینز کی خرابی دونوں والدین میں نہ موجود ہو تو اِس سے بچوں میں اِس بیماری کے ظاہر ہونے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔
    • کالا موتیا کی بیماری اگر پیدا ہو گئی ہے تو اس کا صحیح طریقے سے اور مسلسل علاج کیا جائے۔
    • اگر سفید موتیا بن گیا ہے تو اُس کا بروقت علاج کیا جائے۔
    • ایسے مریض کوئی ایسا پیشہ اختیار نہ کریں جس میں بہت زیادہ باریکی والا کام ہو ورنہ ایک بہت بڑا نقصان یہ ہو گا کہ اُنکو اپنی کم مائیگی اور محرومی کا مسلسل احساس ہوتا رہے گا جس سے وہ نفسیاتی مریض بن سکتے ہیں۔
    • اِس بیماری کے مریضوں کو چاہئے کہ  ایسی جگہوں سے بچیں جاں حادثے کا خطرہ ہوتا ہے کیونکہ اور حادثے کے عمومی  نقصانات کے علاوہ ایک بڑا خطرہ یہ بھی ہے کہ چونکہ ان کی آنکھ کا پردہ  پہلے ہی کمزور ہے؛  اگر اِن کا پردۂ بصارت اُکھڑ گیا تو اُس کی بحالی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہو گا۔

میں نے سُنا ہے کہ اِس کا کوئی جدید علاج دریافت ہو گیا ہے؟ کیا یہ صحیح ہے؟

ک حوصلہ افزا حقیقت یہ ہے کہ اس بیماری کے علاج کے سلسلے میں جہت زیادہ ریسرچ ہو رہی ہے۔

  • ایک انتہائی اہم علاج مستقبل قریب میں سامنے آنے کے قوی امکانات ہیں۔ وہ ہے Stem Cells کی مدد سے لیبارٹری میں پیدا کئے گئے Photoreceptors کی پیوند کاری کا طریقہ۔ یہ طریقہ بعض بیماریوں کے علاج میں بہت اچھے ناتئج دکھا چکا ہے۔ آنکھوں میں بھی قرنیہ کے علاج میں یہ طریقہ اِستعمال ہو رہا ہے۔
  • سُنا ہے کمپیوٹر چپ آنکھ میں نصب کر دیا جاتا ہے جس سے نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔

  • یہ تجربات کئے جا چکے ہیں کہ آنکھ کے اندر کمپیوٹر چپ لگا دی جائے جو سگنل دماغ کو منتقل کر دے۔ تاہم ابھی تک اس قابل نہیں ہو سکے کہ مریضوں کی آنکھ میں اس کو لگایا جا سکے۔
  • ایک تجربہ یہ بھی کیا گیا ہے کہ خاص قسم کی دور بینیں خاص قسم کی عینکوں میں فٹ کر دی جائیں جس سے مریض کی معذوری کمی آ جاتی ہے۔

اگر کسی کی ریٹینا خراب ہو جائے تو کیا ریٹینا تبدیل ہو سکتی ہے؟ بعض لوگوں نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ امریکہ میں آنکھ کا پردہ تبدیل کر دیتے ہیں جس سے نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔

جہاں تک پردے کی تبدیلی کی بات ہے یہ حقیقت نہیں ہے۔ ابھی تک ایسی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکی۔ چپ لگانے کے تجربے کئے جا رہے ہیں لیکن ابھی تک ایسی کوئی کامیابی نہیں حاصل ہو سکی کہ اِسے بطور علاج اختیار کیا جا سکے۔ البتہ اِس کے حوالے سے بہت قوی توقعات ہیں۔

 

1 تبصرہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *