• احسان شناسی اور شکر کے جذبات اپنے اندر پیدا کرنے چاہئیں۔ اللہ کے بارے میں بھی اور انسانوں کے بارے میں بھی۔ اللہ کے بے شمار احسانات اور نعمتوں کو ہم بھول جاتے ہیں اور جو ایک آدھ مشکل یا محرومی ہوتی ہے اُسی کو اپنے دماغ پر سوار کر لیتے ہیں۔ اسی طرح ایک انسان کی بہت سی خوبیاں ہمیں بھول جاتی ہیں اور کوئی ایک خرابی یا برا سلوک سامنے رکھ کر ہم اس کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں۔ پریشانیوں اور محرومیوں کے مرثیے تو ہر وقت فضاؤں میں گونجتے سنائی دیتے ہیں لیکن شکر کا نغمہ کبھی کبھار کی سننے کو ملتا ہے۔
  • خوشی زیادہ تر تفریح طبع سے حاصل نہیں ہوتی۔ خوشی “احساسِ فتح” سے حاصل ہوتی ہے۔ کامیابی کے احساس سے حاصل ہوتی ہے۔
  • نفع حاصل کرنا یا نفع کو حصل کر لینا یہ کوئی کارنامہ نہیں۔ کارنامہ یہ ہے کہ نقصان کو نفع میں بدل دیا جائے۔ بنجر زمین میں سانپ زیادہ ہوتے تھے اور زمین سے فصل اگانا مشکل تھا؛ اس نے سانپوں کو پکڑنا شروع کر دیا۔ لیبارٹریوں میں تریاق بننے لگا، ان کی کھالوں سے جوتے اور دستی بیگ بننے لگے۔ یہ کارنامہ ہے۔
  • خدمت اور ایثار وہ بہترین ہتھیار ہیں جن کے ذریعے تم زندگی سے لطف اُٹھا سکتے ہو۔ زندگی کے اندر مسرت بھر سکتے ہو۔ اس سے خود فراموشی کی نعمت حاصل ہوتی ہے۔ دوسروں کو خوش کرنا، دوسروں کی مدد کرنا، ان کی دعائیں لینا اِس سے مسرت ملے گی، تسلی ملے گی، اپنے آپ پر ناز کرنے کو جی چاہے گا۔ آپ کو بےشمار دوست ملیں گے۔ کسی کی خوبی کی تعریف کر دیں، کسی کی حوصلہ افزائی کر دیں۔ جب لوگوں میں دلچسپی کا اظہار کیا جائے تو اُن کے چہرے خوشی سے دمک اُٹھتے ہیں۔ لوگ صرف اتنا چاہتے ہیں۔ دوسروں کی باتیں توجہ سے سننے والا اور دوسروں کی حوصلہ افزائی کرن والا رفتہ رفتہ ہردلعزیز بن جاتا ہے۔
  • پریشانیوں پر قابو پانے کے لئے مذہب بہترین نسخہ ہے۔ انسان زندگی کو سمجھنے کے لئے نہیں بنایا گیا بلک اسے نبھانے کے لئے بنایا گیا ہے۔ انسان کو اپنی جنگ اکیلے نہیں لڑنی چاہئے بلکہ اس اعلی اور برتر ذات کی طاقت اور مدد سے لڑنی چاہئے۔ اکیلا آدمی آسانی سے شکست کھا سکتا ہے لیکن اگر اُس ہستی کا ساتھ میسر ہو تو انسان بڑی بڑی طاقتوں کو مسخر کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ یقین ہونا چاہئے کہ جس نے پیدا کیا ہے وہ روزی بھی لازماً دے گا۔ وہ مجھ سے پیار کرتا ہے وہ مج سے زیادہ عقلمند ہے وہ مجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔
  • تنقید اور نکتہ چینی سے بد دل نہیں ہونا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ:
  • کوئی بھی مردہ کتے کو ٹھوکر نہیں مارتا۔ کسی کے اندر کوئی خصوصیت ہوتی ہے تو اللہ اسے عزت دیتا ہے۔ جب کسی کو نمایاں مقام ملتا ہے تو لازماً حاسد پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کچھ نہیں کریں گے تو تنقید بھی کوئی نہیں کرے گا۔ تنقید دراصل اعتراف ہے اور یہ بھی دراصل تعریف ہے۔ جب لوگوں سے بلند بننے کی کوشش کرو گے تو نکتہ چینی ضرور ہو گی، باتیں ضرور ہونگی۔ بہتر ہے کہ اس کے عادی بن جاٶ۔
  • ٹھوکر لگانے والا اپنی اہمیت جتا رہا ہوتا ہے، اپنے دل کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے تاکہ اپنے احساس کمتری کو دبا سکے۔ علاوہ ازیں بعض لوگوں کو ایسے لوگوں کی مذمت کرکے وحشیانہ تسکین حاصل ہوتی ہے جو ان کی نسبت زیادہ پڑھے لکھے یا زندگی میں زیادہ کامیاب ہوں۔ ذلیل لوگ بڑے آدمیوں کی غلطیوں اور حماقتوں سے بہت خوشی حاصل کرتے ہیں۔
  • ہم جتنے پریشان ہوتے ہیں کہ تنقید اور مذمت سے ہمیں اتنا نقصان ہوا ہے؛ کیا واقعتاً اتنا نقصان ہوتا بھی ہے؟ کیا لوگ ہمارے متعلق اتنا سوچتے بھی ہیں؟ ہم پریشان رہتے ہیں کہ لوگ کیا سوچیں گے فلاں کیا کہے گا لیکن حقیقت یہ ہے لوگ کسی دوسرے کی موت پر بھی اتنا پریشان نہیں ہوتے جتنا اپنی سردرد پر پریشان ہوتے ہیں۔ جب تک آپ کو یقین ہے کہ آپ سچے ہیں، نامعقول اور نامناسب نکتہ چینی پر بالکل توجہ نہ دیں۔ نکتہ چینی ہمیں مضطرب کیوں کرتی ہے؟ ہم توقع کرتے ہیں کہ لوگ ہمیں “مکمل” سمجھیں اور ظاہر ہے کہ نہ ہم مکمل ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ہیں اس لئے لوگ بھی نہیں سمجھتے۔ جب وہ ہمیں مکمل نہیں سمجھتے تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں۔ حتی الامکان بہترین کام کرنے کی کوشش کرو پھر برساتی پہن لو تاکہ نکتہ چینی کی بارش بھگونے کی بجائے راستے میں ہی رک جائے۔ یا پھر اسے کپڑوں کو بھگونے دو اور اس سے محظوظ ہو اور ہنس دو۔ اپنے دل کو سمجھاؤ کہ “میں اپنی کوشش جاری رکھوں گا، انجام کا اگر میں سچا ہوا تو یہ سارا کچھ بے معنی ہو جائے گا لیکن اگر میں غلط ہوا تو خود مجھے بھی ان ساری باتوں سے اتفاق ہوگا جو میرے بارے میں کہی جا رہی ہیں”۔
  • ہم منطق کی مخلوق ہیں بلکہ ہم جذبات کے بیٹے ہیں۔ ہم میں سے اکثر کی اپنے بارے میں نہایت اچھی رائے ہوتی ہے؛ لیکن اگر ہم آج کے واقعات کو چالیس سال بعد پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو اپنی موجودہ شخصیتوں کا مذاق اڑائیں گے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجروح جذبات و احساسات کو تسکین دینے کی جتنی کوشش کرو گے دشمنوں کی تعداد میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا۔ ہر وقت یہ امکان سامنے رہنا چاہئے کہ میں غلط ہو سکتا ہوں اور کوئی دوسرا صحیح ہو سکتا ہے۔ عقلمندی تو یہ ہے کہ دوسروں کو تنقید کی دعوت دینی چاہئے۔

 

کوئی تبصرہ نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *