عظیم سکالر ڈیل کارنیگی نے پریشانیوں کو مینیج کرنے کیلئے بہت اچھی عملی تجاویز دی گئی ہیں:

  • اگر آپ کو ترقی، عہدہ، یا کوئی مالی فائدہ مل رہا ہو لیکن آپ کو معلوم ہو کہ اس کے نتیجے میں ایک مسلسل ذہنی کوفت یا پریشانی آ جائے گی یا ورزش، سیر، یا تفریح کے مواقع ختم ہو جائیں گے یعنی صحت برباد کرنا پڑے گی تو یہ سودا کبھی نہ کیجئے۔
  • مصروف رہنے سے پریشان رہنے کی عادت چھوٹ جاتی ہے۔ اپنے آپ کو بہت مصروف کر دینا چاہئے۔ چرچل کا قول: “میں بہت مصروف ہوں میرے پاس پریشان ہونے کے لئے وقت نہیں ہے”۔ اسکی بنیاد ایک نفسیاتی اصول ہے جو یہ ہے کہ انسانی دماغ ایک وقت میں ایک سے زیادہ چیزوں پر سوچ بچار نہیں کر سکتا۔ پیشہ ورانہ مصروفیات کے ختم ہونے کے بعد کے لمحات اس سلسلے میں بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ ان لمحات میں پریشانی، انتشار، اور مایوسی کا حملہ ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
  • اگر آپ کے ذہن میں ہدف غیر واضح ہو تو ان کیفیات کے پیدا ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔
  • اکثر اوقات ہم جن باتوں کے بارے میں پریشان ہوتے ہیں وہ حقیقتاً بہت معمولی نوعیت کی ہوتی ہیں۔ اگر ہم حقیر اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کردینے کی عادت کو پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو بہت ہماری پریشانیوں کی فہرست بہت چھوٹی ہو جائے گی۔
  • بے شمار خدشات ایسے ہوتے ہیں جن کے وقوع پذیر ہونے کا کوئی امکان نہیں ہوتا لیکن ہمیں فکر ہوتی ہے کہ اگر ایسے ہو گیا تو کیا بنے گا۔ اگر حقیقت پسند بن کر تجزیہ کیا جائے تو عین ممکن ہے متوقع خدشہ کا امکان پانچ ہزار امکانات میں سے ایک ہو۔ اس طرح کے خدشات کو نظر انداز کر دینے کی جرٲت اگر ہم اپنے اندر پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو پریشانیوں کی ایک لمبی چوڑی تعداد سے ہم چھٹکارا پا سکتے ہیں۔
  • یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ ضرورت پڑنے پر انسان ہر صورت حال کو قبول کر لیتا ہے اور اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اسے بھول جاتا ہے۔ زندگی کے اندر بہت سارے حقائق بڑے تلخ اور ناگوار ہوتے ہیں۔ جب ہمارا شعور اور ہماری سمجھ ہمیں بتائے کہ ہم ایک ایسی چیز سے ٹکر لے رہے ہیں جو اپنی جگہ سے نہیں ہٹائی جا سکتی تو پھر ہمیں اپنی کم مائیگی کی حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے۔ جب ہم ناگزیر کو قبول نہیں کرتے بلکہ اسے برا بھلا کہتے ہیں تو اس سے اپنے اندر تلخی پیدا کرلیتے ہیں۔ ہم ناگزیر کو تو بدل نہیں پاتے البتہ خود ہر وقت مضطرب، پریشان، اور اعصابی تناٶ کا شکار رہنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے اندر کشمکش کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ایک راز کی بات یہ ہے کہ اگرچہ ہم ناگزیر کو تو نہیں بدل سکتے تاہم یہ عین ممکن ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدل لیں۔ جس سے امکانات کا ایک نیا جہان نظروں کے سامنے آ جائے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ندی کا پانی جب دیکھتا ہے کہ میں اس پتھر کو نہیں بہا سکتا تو وہ دوسری طرف سے راستہ بنا کر گزر جاتا ہے۔ خوشی اور مسرت حاصل کرنے کا ایک بڑا اچھا طریقہ یہ ہے کہ آپ ان چیزوں کے متعلق پریشان ہونا چھوڑ دیں جن پر آپ کا کوئی اختیار نہیں۔ “جو ہو کر ہی رہنا ہے اسے سکون سے برداشت کرو”۔

 

کوئی تبصرہ نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *