Ptosis کِسے کہتے ہیں؟

یہ وہ کیفیت ہے جس میں دیکھنے میں آنکھوں کا سائز ایک جیسا نظر نہیں آتا۔ عام طور پر ایک آنکھ  دوسری کے مقابلے میں چھوٹی نظر آتی ہے۔ بعض اوقات دونوں آنکھیں ہی چھوٹی نظر آتی ہیں۔ یہ بیماری بہت عام ہے۔ بالعموم بچوں میں یہ چیز موجود ہوتی ہے بہت سی پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ اکثر اوقات والدین اِس بات پر پریشان ہوتے ہیں کہ کہیں آنکھ چھوٹی تو نہیں رہ گئی۔ پھر دوسری پریشانی یہ ہوتی ہے کہ کیا اِس کا بچے کی نظر پر تو اثر نہیں پڑے گا۔ ذیل کی کُچھ تصویریں اِس کیفیت کو ظاہر کر رہی ہیں:

 

اِس میں بنیادی نقص کیا ہوتا ہے؟

اصل میں آنکھ چھوٹی نہیں ہوتی بلکہ ایک آنکھ پوری طرح کھُلتی نہیں ہےجس کے باعث وہ چھوٹی نظر آتی ہے۔ پپوٹے کو اوپر نیچے کرنے اور آنکھ کو کھولنے کا کام ایک عضلہ کرتا ہے جسے لیویٹرمسل Levator muscle کہتے ہیں۔ یہ عضلہ کسی نقص وجہ سے کمزور ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ آنکھ پوری طرح کھول نہیں سکتا۔ اس سے آنکھ چھوٹی نظر آتی ہے۔

یہ عضلہ کہاں ہوتا ہے؟ ذیل کی تصویروں میں دیکھا جا سکتا ہے:

اس عضلہ کے خراب ہونے کا سبب کیا ہوتا ہے؟

سب سے اہم وجہ تو یہ ہوتی ہے کہ پپوٹوں کے اِس پٹھے کی پیدائشی طور پر ساخت ہی ناقص ہوتی ہے۔ کئی میں بنتا تو صحیح ہے لیکن بعد میں اِس کی نشوونما ناقص رہ جاتی ہے۔ یعنی یہ عضلہ یا تو بنتا ہی کمزور ہے یا پھر اِس کی گروتھ نارمل نہیں ہوتی۔

کئی لوگوں میں چوٹ لگنے سے یہ پٹھہ ابنارمل ہو جاتا ہے۔

بعض لوگوں میں اِس عضلہ کو کنٹرول کرنے والی عصب بیمار ہو جاتی ہے جس سے ایک قسم کا فالج ہو جاتا ہےجس کے نتیجے میں عضلہ کمزور ہو جاتا ہے اور اپنا کام نہیں کر پاتا۔

کئی لوگوں کے پپوٹے کے اندر گِلٹی بن جاتی ہے جو اِس عضلہ کی کارکردگی کو متأثر کر دیتی ہے۔

کیا یہ تکلیف لا علاج ہوتی ہے؟ کیا اپریشن کے علاوہ بھی کوئی علاج ہوتا ہے؟

اہم ترین چیز تو یہ ہے کہ عضلہ کی کمزوری کا سبب تلا ش کیا جائے اور اگر اُس کو دور کرنا ممکن ہو تو اُس کو دور کیا جائے۔

٭ بہت سارے مریضوں میں کو شش کرنے سے کوئی نہ کوئی قابلِ علا ج وجہ مل جاتی ہے۔ اکثریت کا علاج عضلے کی مرمت سے کیا جاتا ہے۔ عضلے کی مرمت اپریشن کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اپریشن کر کے جو کمزور پٹھے کا کُچھ حصہ کاٹ دیا جاتا ہے جِس سے آنکھ بہتر طریقے سے کھُلنا شروع ہو جا تی ہے اور پپوٹا اوپر کی پوزیشن پر رہنا شروع کر دیتا ہے۔

٭ لیکن زیادہ تر مریضوں میں یا تو وجہ مل ہی نہیں پاتی اور اگر مل جائے تو وہ سبب قابلِ علاج نہیں ہوتا۔

 

کوئی تبصرہ نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *