کیا عینک با قا ئدگی سے اِستعمال کر نے سے نمبر ایک جگہ رُک جاتا ہے یا پھر بھی بڑھتا رہتا ہے؟

عینک بیماری کی وجہ دُور نہیں کرتی بلکہ صرف علامتوں کا علاج کرتی ہے یہ جو مشہور ہو گیا ہے کہ “عینک باقائدگی سے اِستعمال کرنے سے نمبر ایک جگہ رُک جاتا ہے۔” یہ بالکل غلط ہے۔

آنکھ کی ساخت میں عموماً 18 سال کی عمر تک تبدیلیاں آتی رہتی ہیں کئی بچوں کی آنکھوں کی گروتھ بیس، اکیس، یا بعض بچوں کی گروتھ چوبیس سال کی عمر میں بھی رُکتی ہے۔ چنانچہ جب تک گروتھ ہوتی رہتی ہے اس وقت تک عینک کا نمبر بدلتا رہتا ہے خواہ عینک جتنی مر ضی با قا ئدگی سے اِستعمال کریں۔ جب آنکھوں کی گروتھ  رُک جاتی ہے اُس وقت عینک کا نمبر بھی ایک جگہ پر رُک جاتا ہے۔ عینک لگانے یا نہ لگانے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

چونکہ بچپن کے دوران یہ عمل مسلسل جاری رہتا ہے اس لئے عینک کا نمبر بھی بدلتا رہتا ہے۔ اسی لئے بچوں کی عینک کا نمبر وقتاً فوقتاً چیک ہوتا رہنا چاہیے تاکہ ساخت میں جتنی جتنی تبدیلی آتی جائے اُتنا اُتنا عینک کا نمبر بھی تبدیل کیا جاتا رہے۔

اِسی طرح چالیس سال کی عمر کے بعد پھر سے عموماً جسم میں تبد یلیاں آنی شروع ہو جا تی ہیں جیسے با ل سفید ہونا شروع ہو جاتے ہیں اِسی طرح اِس عمر کے بعد ایک دفعہ نظر میں تبدیلیاں آنے لگتی ہیں۔

٭ اگر پہلے عینک نہیں لگتی تھی اب ضرورت پڑ سکتی ہے۔

٭ پہلے والی عینک کا نمبر بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔

٭ دور اور نزدیک کا نمبر مختلف ہو جاتا ہے۔ اس سے پہلے ایک ہی عینک سے سارے کام ہو جاتے تھے اب نہیں ہوتے۔

وہ کونسے مسائل ہیں جو عینک باقائدگی سے استعمال نہ کرنے سے سامنے آتے ہیں؟

عینک باقاعدگی سے اِستعمال نہ کرنے سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن سے عینک کے صحیح استعمال کے ذریعے بآسانی نجات حاصل لی جا سکتی ہے۔ چند مسائل ذیل میں درج کیے جا رہے ہیں

ٹی وی دیکھتے ہوئے، ڈرائیونگ کرتے ہوئے، یا پڑھتے ہوئے صاف نظر نہیں آتا؛ اور چونکہ صاف نظر آئے بغیر کام نہیں چل سکتا اِس لئے آنکھوں کو غور کرنا اور زور لگانا پڑتا ہے۔ جس سے آنکھیں بھاری بھاری محسوس ہوتی ہیں، تھک جاتی ہیں، سُرخ ہونے لگتی ہیں، اور الفاظ پر توجہ مرکوز رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔

بچوں کی پڑھائی اور دیگر کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں سردرد ہوتی ہے جو بچوں میں بعض اوقات اتنی شدید ہوتی ہے کہ ساتھ اُلٹیاں بھی انے لگتی ہیں۔

پیشہ ورانہ کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ ایسے کام چھوڑ دیتے ہیں جن پر نظر لگانی پڑتی ہے اور یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ “بس جی اب ہم بوڑھے ہو گئے ہیں”۔ حالانکہ اِس بڑھاپے پر بآسانی قابو پیایا جا سکتا ہے۔

اگر کسی بچے کی ایک آنکھ کی نظر دوسری آنکھ کی نسبت کافی زیادہ کمزور ہو تو زیادہ کمزور آنکھ کی نشوونما ناقص رہ جاتی ہے۔ کیونکہ اُس آنکھ سے حاصل ہونے والی معلومات کی دماغ توجیہ نہیں کر پاتا اور بالآخر دماغ کے اُس حصّے کی بھی نشوونما ناقص رہ جاتی ہے اس کیفیت کا نام Amblyopia  ہے۔ اگر چھوٹی عمر میں اس تکلیف کا پتہ چل جا ئے تو تقریباً سو فیصد علاج ممکن ہوتا ہےلیکن بعد میں اس کا علاج نا ممکن ہو جاتا ہے۔ ایسی آنکھ عملی طور پر نابینا ہی ہو جاتی ہے۔ پھر کسی دوائی یا اپریشن سے بھی اس کا علاج ممکن نہیں رہتا۔ پہلے تو بارہ سال کی عمر کو اِس کی حد قرار دیا جاتا تھا لیکن اب اِس میں کافی اختلاف ہے۔ زیادہ تر تحقیقات آٹھ یا نو سال کی حد مقرر کر رہی ہیں۔

بہت سارے بچوں میں آنکھوں کے ٹیڑھا پن کی وجہ نظر کی کمزوری ہوتی ہے۔

جس انکھ میں یہ نقص ہوتا ہے بہت سارے لوگوں میں وہ آنکھ ٹیڑھی [بھینگی] ہو جاتی ہے۔ یہ نقص بچپن میں بھی سامنے آ سکتا ہے بڑی عمر میں بھی۔

اِس کے علاوہ جن بچوں کی نظر زیادہ کمزور ہو وہ اگر عینک استعمال نہ کریں تو اُن کی آنکھوں میں ٹیڑھا پن آنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے۔ خصوصاً جو آنکھ زیادہ کمزور ہو وہ ٹیڑھی ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

کئی لوگوں میں نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔

نظر کی کمزوری کی وجہ سے سردرد بہت عام تکلیف ہے۔

عینک کب اِستعمال کر نی چا ہئے؟ نزدیک کا کام کر تے ہو ئے یا دُور کا کام کر تے ہو ئے؟

یہ بھی ایک بڑی عام غلط فہمی ہے؛ لوگ سمجھتے ہیں کہ عینک یا تو دور کے کام کے لئے ہوتی ہے یا نزدیک کا کام کرنے کے لئے۔ حالانکہ مریضوں کی اکثریت کو جو عینک لگتی ہے وہ ہر وقت لگانے کے لئے ہوتی ہے۔ دور کے لئے بھی ضروری ہوتی ہے اور نزدیک کے لئے بھی۔ اگر اِس طرح استعمال نہ کیا جائے تو عینک کا عملاً کوئی فائدہ ہی نہیں ہوتا۔ خاص طور پر چالیس سال کی عمر سے پہلے تو سب کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ہر وقت عینک استعمال کریں تاکہ آنکھوں پر جو بوجھ پڑتا ہے اُس سے بچا جا سکے۔ چنانچہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ

چا لیس سال کی عمر سے پہلے جو بھی نمبر لگے ﴿خواہ مثبت ،منفی، یا سلنڈر﴾ وہ ہر وقت اِستعما ل کرنا ضروری ہوتا ہے۔

چا لیس سال کی عمر کے بعد دُور اور نزدیک کے نمبر مختلف ہو جاتے ہیں اُس وقت ممکن ہے صرف دُور کے لئے ضرورت ہو یا صرف نزدیک کے لئے۔

عینک کا نمبر اگر بہت زیادہ نہ ہو تو اکثر لوگوں کے لئے اکٹھی عینک ہی زیادہ بہتر ہو تی ہے۔ تاہم یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ اِس کے کچھ اپنے مسائل بھی ہوتے ہیں جن کے ساتھ زندہ رہنا سیکھنا پڑتا ہے۔

اگر دور اور نزدیک کے لئے علیحدہ علیحدہ نمبر تجویز کیے گئے ہوں تو اِس صورت میں دُور اور نزدیک کی عینک اکٹھی بنوانی چا ہئے یا علیحدہ علیحدہ؟

اِس کا فیصلہ عموماً اتنا آسان نہیں ہوتا۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف عوامل کو دیکھتے ہوئے ہی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ جن میں سے چند درجِ ذیل ہیں

زیادہ عمر کے لوگوں کی ضرورت عموماً بہت زیادہ باریکی کے کاموں کی نہیں ہوتی۔ اور اُن کی زندگی بھی شدید مصروفیات والی نہیں ہوتی، پھر عموماً اُن کی عینکوں کے نمبر اکثر بڑے ہوتے ہیں اِس لئے وہ بھی علیحدہ علیحدہ عینکوں کو ترجیح دیتے ہیں اور ڈاکٹر بھی اِسی کی ترغیب دیتے ہیں۔

کم پڑھے ہوئے لوگوں کی ضروریات بھی عموماً ایسی ہوتی ہیں کہ وہ بھی زیادہ تر علیحدہ علیحدہ عینکیں بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

جو لوگ زیادہ تر وقت قریب کے کام میں مصروف رہتے ہیں اُن کے لئے بھی ڈبل شیشوں والی عینک زیادہ آرام دہ نہیں ثابت ہوتی۔ وہ علیحدہ علیحدہ عینکیں بنوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

منفی نمبر کے عدسوں والی عینک والے لوگ عموماً نزدیک کے کام میں عینک کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اِس لئے وہ بھی علیحدہ عینک بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جن لوگوں کو مثبت نمبر کی عینک لگتی ہے اُن کا نمبر اگر بہت زیادہ نہ ہو تو اکٹھی عینک بنانے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔ اگر عینک کا نمبر کافی زیادہ ہو تو پھر اکٹھی عینک تنگ کرتی ہے اس لئے علیحدہ علیحدہ عینکیں ہی اُن کے لئے بہتر رہتی ہیں۔

وہ پڑھے لکھے لوگ جنھیں اکثر کمپیوٹر پر مصروف رہنا ہوتا ہے۔ یا جنھیں لیکچرز دینے یا سننے جیسی مشغولیت ہوتی ہے ایسے لوگوں کے لئے ملٹی فوکل عدسے بہترین ثابت ہوتے ہیں۔

بچوں کے معاملے میں کونسی احتیاطیں کی جائیں کہ اُن کی نظر بھی کمزور نہ ہو اور اُن کی پڑھائی بھی متاثر نہ ہو؟

اصل میں نظر کو کمزور ہونے سے بچانے کے لئے تو وہی احتیاطیں ہو سکتی ہیں جو ابھی بتائی گئی ہیں کہ اُن حالات سے بچوں کو بچایا جائے جن سے نظر کمزور ہو جانے کا خدشہ زیادہ ہو جاتا ہے مثلاً کمپیوٹر چلانے، گیمیں کھیلنے، اور کارٹون فلمیں دیکھنے پر غیر متوازن وقت صرف نہیں ہونا چاہئے۔ اور جب بچے یہ کام کریں تو اِس بات سختی سے اہتمام کیا جائے کہ وہ یہ کام وقفوں سے کریں۔ یہ وقت بغیر موزوں وقفوں کے یا بہت طویل نہیں ہونا چاہئے۔ اِسی ویبسائیٹ پر کمپیوٹر کے استعمال کے دوران ضروری احتیاطوں کا مضمون موجود ہے اُس کا مطالعہ کریں۔

اِس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ جب معلوم ہو جائے کہ بچے کی نظر کمزور ہے تو پھر عینک کے استعمال میں بےاحتیاطی نہ کی جائے تاکہ نظر کے مزید کمزور ہونے، سردرد اور عدمِ ترکیز جیسی علامات، اور نئی بیماریوں مثلاً بھینگا پن اور Amblyopia سے بچے کو بچایا جا سکے۔ اِن تکالیف سے بچے کی پڑھائی کو بھی خراب ہونے سے بچایا جا سکتا ہے اور بچے کی ذہنی صحت کی نارمل گروتھ  کے لئے بھی اِن سے بچاوٴ بہت ضروری ہے۔

اگر ہم بچے کو ہر وقت عینک لگانا شروع کر دیں تو اُس کی نظر تو بہت جلد بہت زیادہ کمزور ہو جائے گی؛ کیا یہ بہتر نہیں کہ بچہ کبھی کبھی لگا لیا کرے مثلاً پڑھتے وقت؟

یہ ایک بڑی عام غلط فہمی ہے کہ عینک کو استعمال کرنے سے نظر مزید کمزور ہو جاتی ہے اور تیزی سے کمزور ہو جاتی ہے۔ دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ عینک یا تو قریب کا کام کرنے کے لئے ہوتی ہے یا دُور دیکھنے کے لئے۔ حقیقت یہ ہے کہ عینک استعمال کرنے سے نہ تو نظر کی کمزوری ختم ہوتی ہے اور نہ ہی زیادہ ہوتی ہے۔

اصل بات صرف اتنی ہے کہ جن کی نظر کی کمزوری ہلکی مقدار میں ہوتی ہے وہ لاشعوری طور پر زور لگا کر عینک کے بغیر بھی دیکھ سکتے ہیں اگرچہ اِس سے اُن کو تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن جب عینک کے استعمال سے آنکھیں نارمل ہو جاتی ہیں تو تکلیف تو ٹھیک ہو جاتی ہے لیکن اب آسانی سے عینک کے بغیر فوکس نہیں کر پاتیں جس سے وہ سمجھتے ہیں کہ اب اُن کی نظر پہلے سے زیادہ کمزور ہو گئی ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ بچوں کی عینک خواہ وہ منفی نمبر کی ہو خواہ مثبت نمبر کی اُس کو ہر وقت لگانا ضروری ہوتا ہے۔ بچوں کی عینک صرف دور کے لئے یا صرف نزدیک کے لئے نہیں ہوتی بلکہ ہر وقت استعمال کے لئے ہوتی ہے۔ اگر ہر وقت استعمال نہ کیا جائے تو آنکھوں کو مطلوبہ ریسٹ میسر نہیں آتا جس سے مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہتے۔

ہمارا بچہ تو عینک کے بغیر بھی پڑھ لیتا ہے ہم کیوں بچے کو عینک کی مصیبت میں ڈالیں؟

جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ ہلکے منفی نمبر کی عینک، مثبت نمبر کی عینک، اور سلنڈر نمبر کی عینک کی صورت میں یہ دھوکہ ہوتا ہے کہ چونکہ عینک کے بغیر بھی زیادہ تر کام چل جاتا ہے اِس لئے مریض اور مریض کے لواحقین اِس بات پر قائل نہیں ہو پاتے کہ عینک اُن کے لئے ضروری ہے۔ حالانکہ

پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر عینک استعمال نہ کریں گے تو تکالیف ختم نہیں ہوںگی۔ کبھی کبھار استعمال کرنے سے کبھی آرام آ جائے گا اور کبھی تکلیف شروع ہو جائے گی۔

دوسری انتہائی بات یہ کہ عینک بعض انتہائی خطرناک مسائل سے بچاوٴ کے لئے تجویز کی جاتی ہے۔ اگر عینک باقاعدگی سے استعمال نہیں کی جائے گی تو اُن تکالیف سے بچاوٴ ناممکن ہو جائے گا۔ بجائے اِس کے کہ وہ تکالیف آجائیں اور پھر اُن کا علاج کیا جائے اِس سے بہتر ہے کہ اُن کو آنے سے روکا جائے جس کا واحد طریقہ عینک کا صحیح طریقے سے استعمال کرنا ہے۔

دور و نزدیک اکٹھی عینکیں مختلف قسم کی مارکیٹ میں دستیاب ہیں اُن میں سب سے اچھی کون سی قسم ہے؟

مختلف فاصلوں پر کام کرنے والی عینک تین قسم کی ہوتی ہے:

1. بائیفوکل

2. ٹرائیفوکل

3. ملٹی فوکل

عینک کے بائیفوکل شیشے
Bifocal lense

یہ عینک میں لگائے جانے والے وہ عدسات ہیں جن کے دو حصّے ہوتے ہیں ایک حصّے کو عام سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے حصّے میں سے دیکھ کر نزدیک کے کام کیے جاتے ہیں۔ اِن عدسات کو بہت سے لوگ پسند کرتے ہیں اگرچہ بہت سے اِن سے مطمئن نہیں ہوتے۔ کیونکہ اُن کو اِن کو استعمال کرتے ہوئے دقّت محسوس ہوتی ہے۔ نیچے تصویر میں اِسی قسم کی عینکیں نظر آ رہی ہیں۔

عینک کے ٹرائی فوکل شیشے
Trifocal lenses

یہ عینک میں لگائے جانے والے وہ عدسات ہیں جن کے تین حصّے ہوتے ہیں ایک حصّے کو عام سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے استعمال کیا جاتا ہے دوسرے حصّے کو کمپیوٹر پر کام کرنے یا اِسی طرح کے درمیانے فاصلے پر ہونے والے کام کیے جاتے ہیں جبکہ تیسرے حصّے میں سے دیکھ کر نزدیک کے کام کیے جاتے ہیں۔ اِن عدسات کو زیادہ لوگ پسند نہیں کرتے کیونکہ اِن کو استعمال کرتے ہوئے کافی دقّت محسوس ہوتی ہے اور اِن سے فائدہ اُٹھانے کے لئے کافی پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیچے تصویر میں اِسی قسم کی عینک نظر آ رہی ہے۔

عینک کے ملٹی فوکل  شیشے
Multifocal lenses

یہ عینک میں لگائے جانے والے وہ عدسات ہیں جن کے کئی حصّے ہوتے ہیں سب سے اوپر والے حصّے کو عام سرگرمیاں انجام دیتے ہوئے استعمال کیا جاتا ہے درمیان والے حصّے کو کمپیوٹر پر کام کرنے یا اِسی طرح کے درمیانے فاصلے پر ہونے والے کام کیے جاتے ہیں۔ اِس حصّے کی یہ خصوصیّت ہوتی ہے کہ اِس میں نمبر بتدریج بدلتا ہے اور مختلف فاصلوں پر دیکھنے کیلئے مختلف نمبر میسّر آ جاتے ہیں۔ جبکہ تیسرے حصّے میں سے دیکھ کر نزدیک کے کام کیے جاتے ہیں۔ درمیانے حصّے کے دونوں طرف کچھ ایریا ایسا ہوتا ہے جس میں کوئی نمبر نہیں ہوتا۔ یہ حصّے اکثر لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ اِن عدسات کو بہت زیادہ لوگ پسند کرتے ہیں کیونکہ اِن کو استعمال کرتے ہوئے کافی آسانی ہوتی ہے اگرچہ اِن سے فائدہ اُٹھانے کے لئے کافی پریکٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن پڑھے لکھے لوگوں اِس کی وجہ سے بار بار عینکیں بدلنے کی کوفت سے نجات مل جاتی ہے۔ نیچے تصویر میں اِس قسم کی عدسوں کے مختلف حصوں کی تقسیمِ کار دکھائی گئی ہے:

اور نیچے والی تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ اِن شیشوں میں سے کیسے نظر آتا ہے یا اِن کے مختلف حصّے کیسے کام کرتے ہیں۔

اب تک جو عینکیں مارکیٹ میں میسّر ہیں اُن میں یہ سب سے اچھی قسم کے شیشے ہیں۔ اِن کے ذریعے بہت حد تک ساری سرگرمیاں ایک ہی عینک سے انجام دی جا سکتی ہیں۔ خاص طور پر یہ اُن لوگوں کے لئے بہت موزوں ہیں جن کو کئی کمپیوٹر پہ کام کرنا ہوتا ہے، کبھی کتاب پڑھنی یا کسی رجسٹر پہ لکھنے یا پڑھنے کا کام کرنا پڑتا ہے، کبھی پروجیکٹر پہ کوئی پریزینٹیشن دیکھنی ہوتی ہے اور ڈرائیونگ کرنی ہوتی ہے۔

نظر کی کمزوری کا کیا عینک کے علاوہ بھی کو ئی علاج ہے؟

اگر تو آپ کے ذہن میں کوئی دوائی ہے یا ورزیشیں ہیں تو تلخ حقیقت یہ کہ ایسا کوئی علاج موجود نہیں۔ ابھی تک بہت تحقیقات کے باوجود ایسا کوئی ذریعہ علاج دریافت نہیں ہو سکا۔

بہت ہی کم تعداد میں بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی بینائی کسی وقتی وجہ سےکم ہوئی ہوتی ہے یا نظر کی کمزوری کی کوئی ایسی وجہ ہوتی ہے جو قابلِ علاج ہوتی ہے مثلاً شوگر کے نامناسب علاج کے با عث نظر کا کم ہو جانا، کالا موتیا کے باعث نظر کا متاثر ہو جانا، قرنیہ میں سوجھن کے باعث خصوصاً Limbal conjuctivitis [یہ الرجی کی ایک قسم ہے] کے باعث۔ ایسے لوگوں کو یقیناً دوائی سے فا ئدہ ہوتا ہے۔

میری پریکٹس کا اس وقت تیسرا عشرہ مکمل ہونے کو ہے اس طویل عرصے کے دوران مجھے کوئی ایسا شخص نہیں ملا جس کی عینک واقعی کسی ہو میوپیتھک یا کسی اور نسخے سے اُتر گئی ہو۔ کئی لوگ آئے ہیں کہ میں نے علاج کروایا ہے دیکھیں کتنا فرق پڑا ہے؟ جب چیک کیا ہے تو جتنا نمبر پہلے لگتا تھا اُتنا ہی لگ رہا ہو تا ہے البتّہ علامات ضرور دب چکی ہوتی ہیں۔

عینک یا کنٹیکٹ لینز کے علاوہ اِس مسئلے کا علاج صرف اور صرف آنکھ کی ساخت میں تبدیلی لانے سے ممکن ہے جو کئی طریقوں سے ممکن ہے مثلاً

1۔ لیزر لگا نے سے،

2۔ فیکو اپریشن سے،

3۔ Phakic IOL سے،

4۔ قرنیہ کے اندر فٹ ہونے والے Corneal rings سے۔

تاہم حقیقت یہی ہے کہ سب سے زیا دہ اِستعمال ہو نے والا اور سب سے زیادہ موثر اور آزمودہ طریقہ لیزر ہی ہے.

اس اپریشن کی تفصیلی معلومات کے لئے یہاں کلک کریں انشاء اللہ آپ کے بہت سارے سوالوت کا جواب مل جائے گا۔

Phakic IOL  کیا چیز ہے اور یہ اپر یشن کِس قسم کے مر یضوں کا کِیا جا تا ہے؟

یہ بھی ایک لینز ہوتا ہے جسے آپ کنٹیکٹ لینز بھی کہہ سکتے ہیں اور IOL بھی۔ اِسے اپریشن کر کے آنکھ کے اندر فِٹ کر دیا جاتا ہے لیکن اس کو فِٹ کرنے کے لئے قدرتی لینز کو نکالا نہیں جاتا بلکہ اس اپریشن کے بعد مریض کی آنکھ میں دو لینز ہوتے ہیں ایک قدرتی اور دوسرا مصنوعی۔ اس کی دو قسمیں ہیں جو نیچے کی تصویر میں دکھا ئی گئی ہیں۔ یہ لینزاُن لو گوں کے لئے بہترین ہے جِن کا عینک کا نمبر بہت زیادہ ہوتا ہے اور اُن کے لئے لیزر اپریشن مناسب نہیں ہوتا کیونکہ باعثِ نقصا ن ہو سکتا ہے۔

کوئی تبصرہ نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *