نظر کیوں کمزور ہوتی ہے؟

نظر کی کمزوری کی مختلف وجو ہات ہوتی ہیں مثلاً بڑ ھاپا، چوٹ آ جانا، شو گر کی بیماری، وغیرہ لیکن چالیس سال کی عمر سے پہلے سب سے زیادہ لوگوں کی کمزوری کی بنیادی وجہ آنکھ کی ساخت میں تنوّع کا پایا جانا ہے۔

آپ دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے اِس کائنات میں ہر لحاظ سے بہت زیادہ ورائیٹی پیدا کی ہے؛ اگر پھول ہیں تو رنگ برنگے، اگر پرندے ہیں تو طرح طرح کے۔ اِسی طرح آنکھوں کی ساخت بھی وہ سب کی ایک جیسی نہیں بناتا اس میں بھی تنوع پایا جاتا ہے۔

جب کوئی بچہ عمر کے ساتھ بڑا ہوتا ہے تو اُس کے جسم کے سارے اعضاء میں نمو کے باعث تبدیلیاں آتی ہیں؛ ہاتھ بڑے ہو جاتے ہیں پیر بڑے ہو جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اِسی نمو کے نظام کے زیرِ اثر آنکھیں بھی نشوونما کے عمل سے گزرتی ہیں۔

اس نشوونما کے دوران بعض بچوں کی آنکھ کے کرے کی لمبائی نارمل سائز سے زیادہ بڑی ہو جاتی ہے، جبکہ بعض بچوں کی آنکھوں کی لمبائی مطلوبہ سائز سے چھوٹی رہ جاتی ہے۔

ہر ایک کی آنکھ میں ایک لینز موجود ہوتا ہے، کئی بچوں کا لینز قدرتی طور پر زیادہ موٹ بن جاتا ہے یا نسبتاً پتلا بن جاتا ہے اس سے بھی پردہ بصارت پر تصویر صاف نہیں بنتی اور نظر کمزور ہو جاتی ہے۔

اِسی طرح کئی بچوں کے قرنیہ کی اُفقی اور عمو دی گو لا ئی میں فرق ہو تا ہے۔

بعض بچوں کی آنکھ کا عدسہ نارمل سائز یا شکل کا نہیں ہوتا۔

اِن سب صورتوں میں آنکھ کا شعاعوں کو فوکس کرنے کا اندرونی نظام صحیح کام نہیں کر پاتا۔ اِن نقائص والی آنکھوں جو تصویر آنکھ کے پردے کے اوپر بنتی ہے وہ دُھندلی سی [Out of focus] ھوتی ہے۔ چنانچہ دماغ کو یہ فیصلہ کرنے میں مشکل ہوتی ہے کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔

اگر فوکس تھوڑا خراب ہو تو دماغ آنکھ کے فوکس کرنے کے نظام میں تبدیلیاں لا کر کافی حد تک فوکس کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ لیکن اِس صورتِ حال میں چونکہ لاشعوری سطح پر پٹھوں اور اعصاب کا زور لگ رہا ہوتا ہے اِس لئے آنکھوں پر دباوٴ محسوس ہوتا ہے، سر بھاری ہونے لگتا ہے، آدمی جلدی تھک جاتا ہے۔

اگر دھندلاپن بہت زیادہ ہو یا ایک آنکھ میں بہت زیادہ ہو تو پھر ایسے بچوں کی ایک آنکھ کام کرنا سیکھ ہی نہیں پاتی جس سے وہ پوری زندگی کے لئے عملاً ناکارہ ہو جاتی ہے۔ اِس کیفیت کو Amblyopia کہتے ہیں۔

اس کے علاوہ اعصاب اور عضلات کے غیر متوازن استعمال سے بہت سے بچوں میں بھیگاپن پیدا ہو جاتا ہے۔

چونکہ فوکس کرنے کے نظام کے اِن نقائص کو مختلف طریقوں سے ٹھیک کیا جا سکتا ہے جس سے صاف نظر آ نا شروع ہو جاتا ہے۔ اِس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ زیا دہ تر بچوں میں نظر کی کمزوری بیما ری نہیں کہلا سکتی بلکہ اس کو قدرت میں پائے جانے والے تنوع کی ایک شکل کہہ سکتے ہیں۔ یہ بالکل  ایسے ہی ہے جیسے کسی کے رنگ کے سانولا ہو نے کو ہم بیماری نہیں کہہ سکتے۔

عام خیال ہے کہ جب پڑھائی کا بوجھ پڑتا ہے تونظر کمزور ہونا شروع ہوجاتی ہے کیا یہ صحیح ہے؟ کیا پڑھائی بچوں کی آنکھوں کے لئے نقصان دہ ہے؟ کئی بچے بہت چھوٹی عمر بھی لگائے پھرتے ہیں۔ نظر کمزور ہونے کا کس عمر میں زیادہ خطرہ ہوتا ہے؟

نظر کی کمزوری کا اِظہار پہلی دفعہ کب ہو گا یہ مختلف لو گوں میں مختلف ہو تا ہے۔ البتّہ چونکہ بچوں کی عمر کے دو حصّے ایسے ہیں جن میں اُن کا جسم تیزی سے بڑھنا شروع کر دیتا ہے؛ ایک تو 10 سے 12 سال کی عمر ہے اور دوسری 16 سے 18 سال کی عمر۔ چونکہ بچوں کی نظر کی کمزوری کا گہرا تعلق آنکھ کی گروتھ سے ہے یعنی انہی دنوں میں آنکھ بھی باقی جسم کی طرح تیزی سے بڑی ہوتی ہے۔ جب غیر متناسب گروتھ ہوتی ہے تب ہی پہلی دفعہ فوکس خراب ہونا شروع ہوتا ہے اور علامات پیدا ہونا شروع ہوتی ہیں چنانچہ بچوں کی عمر کے یہی دو حصے ایسے ہیں جن میں یا تو پہلی دفعہ نظر کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے یا اچانک اُس کی مقدار بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر تو عینک کا نمبر بڑھتا ہی ہے لیکن کئی بچوں کا خود بخود کم بھی ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پڑھنے سے نظر کمزور نہیں ہوتی لیکن پڑھنے والے بچوں کی نظر کی کمزوری ظاہر ہو جاتی ہے کیونکہ جب وہ پڑھائی کرتا ہے تو علامات ولدین کو مجبور کر دیتی ہیں کہ بچے کو چیک کروائیں۔ جو بچے پڑھائی نہیں کرتے نظر اُن کی بھی کمزور ہوتی ہے لیکن اُن میں علامات پیدا نہیں ہوتیں اِس پتہ نہیں چلتا۔ البتہ جدید تحقیقات اِس بات کی تصدیق کر رہی ہیں کہ پڑھائی کے بعض ایسے طریقے ضرور ہیں جو نظر کی کمزوری کا باعث بن سکتے ہیں۔

اِن میں سب سے اہم کمپیوٹر کا بہت زیادہ استعمال ہے۔

اِسی طرح جو بچے حفط کرتے ہوئے لمبے لمبے عرصے کے لئے نزدیک نظر کو مرکوز کیے رکھتے ہیں اُن میں نظر کمزور ہو جانے کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے۔

جو بچے گھنٹوں ٹی وی کے سامنے بیٹھے کارٹون دیکھتے رہتے ہیں اُن میں بھی ی خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے کہ اُن کی نظر کمزور ہو جائے گی۔

بعض بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کی پیدا ہوتے وقت ہی نظر بہت زیادہ کمزور ہوتی ہے یا ابتدائی ایام میں ہی بہت زیادہ کمزور ہو جاتی ہے۔ ایسے بچوں کو نابینا ہونے سے بچانے کے لئے عینک ناگزیر ہوتی ہے۔

اِس لئے اِس بارے میں کچھ نیہں کہا جا سکتا کہ کس عمر میں بچے کی نظر کمزور ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔ یہ قسمت کی بات ہے۔ اِسی لئے جہاں ممکن ہو وہاں یہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ بغیر علامات کے بھی بچوں کی نظر کا معائنہ کیا جائے۔ نظر تو پہلے کمزور ہوتی ہے علامات تو بہت بعد میں پیدا ہوتی ہیں۔ اور بعض کیفیات مثلاً Amblyopia، بھینگا پن کو پیدا ہونے سے بچایا تو جا سکتا ہے لیکن جب پیدا ہو جائیں تو علاج بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اور اِن سے بچانا تب ہی ممکن ہے جب نظر کی کمزوری بالکل شروع شروع میں ہی پکڑی جائے۔

کیا یہ حقیقت نہیں آجکل بچوں میں نظر کی کمزوری زیادہ ہو گئی ہے پہلے تو اتنے زیادہ بچوں کی نظر کمزور نہیں ہوا کرتی تھی؟

اصل میں بچوں میں نظر کی کمزوری کا تناسب زیادہ نہیں ہوا بلکہ لوگوں میں بیماریوں کے بارے میں شعور میں اضافہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں تعلیم کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے جس سے تشخیص کا تناسب بہتر ہو گیا ہے۔ پہلے بےشمار بچوں کے بارے میں پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ ان کی نظر کمزور ہے۔

1 تبصرہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *